پروشا
پروشا (سنسکرت: पुरुष) ہندو مت کے فلسفے میں ایک اہم تصور ہے۔ یہ لفظ ویدک دور سے ہی ہندو فلسفے اور مذہبی متنوں میں استعمال ہوتا رہا ہے۔ پروشا کو عام طور پر کائناتی انسان یا کائناتی روح کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ یہ تصور سامکھیا فلسفے میں بھی مرکزی حیثیت رکھتا ہے، جہاں اسے پرکریتی (فطرت یا مادہ) کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔[1][2][3]
وجہ تسمیہ
[ترمیم]لفظ "پروشا" سنسکرت زبان سے ماخوذ ہے جس کا مطلب "انسان" یا "روح" ہوتا ہے۔ یہ لفظ وید میں بھی استعمال ہوا ہے اور بعد میں ہندو فلسفے کے مختلف مکاتب فکر میں اس کی تشریح کی گئی ہے۔[4] [4]
ہندو مت میں پروشا
[ترمیم]ہندو مت میں پروشا کو کائناتی روح یا کائناتی انسان کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ رگ وید کے مشہور پرورش سکتا میں پروشا کو ایک عظیم وجود کے طور پر بیان کیا گیا ہے جس کی قربانی سے کائنات کی تخلیق ہوئی۔ اس متن کے مطابق، پروشا کی قربانی سے چاند، سورج، ہوا، آگ اور دیگر عناصر وجود میں آئے۔
سامکھیا فلسفہ
[ترمیم]سامکھیا فلسفے میں پروشا کو پرکریتی (فطرت یا مادہ) کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ اس فلسفے کے مطابق، پروشا ایک غیر فعال شہادت دینے والا ہے، جبکہ پرکریتی فعال اور تخلیقی ہے۔ دونوں کے ملاپ سے کائنات کی تخلیق ہوتی ہے۔
ویدانت فلسفہ
[ترمیم]ویدانت فلسفے میں پروشا کو برہمن (کائناتی روح) کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ ویدانت کے مطابق، پروشا اور برہمن درحقیقت ایک ہی ہیں اور ان کی شناخت ہی حقیقی علم ہے۔
دیگر مذاہب میں
[ترمیم]پروشا کا تصور دیگر مذاہب اور فلسفوں میں بھی پایا جاتا ہے، اگرچہ اس کی تشریح مختلف ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، بدھ مت میں بھی ایک مشابہ تصور موجود ہے، جسے اناتما کہا جاتا ہے۔
مزید دیکھیے
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]مراجع
[ترمیم]- Steven Rosen (2006)، Essential Hinduism، Greenwood Publishing Group، ISBN:978-0275990060
- C. Sharma (1997)، A Critical Survey of Indian Philosophy، New Delhi: Motilal Banarsidass Publ، ISBN:81-208-0365-5
- Nicholas Sutton (2016). Bhagavad-Gita (بزبان انگریزی). Oxford Centre for Hindu Studies. ISBN:978-1-366-61059-1.
- John A. Grimes (1996)۔ A Concise Dictionary of Indian Philosophy: Sanskrit Terms Defined in English۔ State University of New York Press۔ ISBN:0791430677